بیٹا


Beta_05-01-2016

خصوصی مائکرو فکشن “بیٹا” تحریر آل حسن خاں قائم گنج انڈیا۔۔

میں جب کبھی رکشہ کی سواری کرتا تھا تو اپنی جیب میں ریزگاری بھر لیتا تھا یہ میری عادت تھی اور رکشہ والے کے جو نصیب میں ہوتا اسے بنا دیکھے دے دیتا۔آج بھی اپنے کرتے کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور مٹھّی بھر ریزگاری نکال کر اس رکشہ والے لڑکے طرف بڑھا دی جو مجھے اور میرے ایک دیرینہ دوست کو لیکر میری کوٹھی سے بازار لایا تھا جسے لینے سے اس نے اپنا جھکا ہوا سر نفی میں ہلاتے ہوئے منع کر دیا تو مجھے بہت حیرت ہوئی ۔

“اسے لیکر دیکھو تو سہی یہ تمہارے کرائے سے کم ہوں تو میں اور دے دونگا۔” میرے اتنا کہنے پر اس نے جواب دیا ” نہیں صاحب ! مجھے آپ سے پیسے نہیں لینا ہے۔”


کیوں؟” میں نے حیرت سے سوال کیا اور میرے دوست نے ہم دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے ١٠٠ کا ایک نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے ناراض ہوکرکہا” ٹھیک ہے جتنے پیسے تیرے بنتے ہیں اس میں سے کاٹ لے۔”
“اس نے نوٹ کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا اور بولا “جی نہیں مجھے نہیں لینا ہے۔” یہ سن کر میرا دوست حیرت سے میرا منھ دیکھنے لگا۔” بس صاحب مجھے آپ سے نہیں لینا ہے۔” وہ بدستور سرجھائے ہوئے مجھ سے مخاطب تھا۔
اس لیے میں نے نہایت نرمی کے ساتھ رکشہ سے اترتے ہوئے تجسس سے پوچھا”ایسی کیا بات ہے بیٹا ! تم ایک غریب مزدور ہو اور اپنے مزدوری کے پیسے مجھ سے نہیں لینا چاہتے۔”


صاحب! اس شہر میں میں ایک مہینے سے رکشہ چلا رہا ہوں۔ مجھے کسی سواری نے آج تک بیٹا نہیں کہا آپ نے رکشہ میں بیٹھتے ہی کہا بیٹا بازار تک لے چلو۔ ” کہتے ہوئے وہ پھپھک پڑا

آل حسن خاں “رہبر” قائم گنج بھارت