بینائی


 

عنوان : “بینائی” تحریر : آل حسن خاں – قائم گنج، بھارت

(عالمی اردو فکشن فورم – عالمی علامتی افسانہ ایونٹ)

 

جس کی گلیوں، کوچوں میں ٹانگ توڑ گڈھے اور کالے کیچڑ سے بھری ہوئی بجبجاتی بدبودار نالیاں تھیں جس کے مکانوں میں روشندان نہ ہی کوئی کھڑکی تھی عجیب بستی تھی وہ جس میں اس کا بچپن پروان چڑھا۔ اس کے باشندے اور نو نہال نابینا تھے جن کے درمیان اس کی پرورش ہوئی لیکن وہ نابینا رہ کراپنی زندگی گزارنا نہیں چاہتا تھا اس لئے وہ چاہ کر بھی ان کے ساتھ کھیلنا پسسند نہیں کرتا تھا کیونکہ اس کو بستی کے کنارے بنا وہ گھر اچھّا لگتا جو بہت روشن تھا جو اس کے دل کو بھلا لگتا تھا اسے محسوس ہوتا جیسے اس کو روزانہ وہاں نئی روشنی دکھائی دیتی ہے لیکن ایک دن اسے اس روشنی سے محروم کردیا گیا اور اسے محروم کرنے والی اس کی سب سے پیاری وہ شئے تھی جس کی طرف دیکھنے سے اسکی آنکھوں کو ٹھنڈک محسوس ہوتی اور جس کے لمس سے اس کے دل کو سکون ملتا، لیکن یہ شاید اس کی اپنی کوئ مجبوری تھی جس کی وجہ سے اس نے اپنے ایک کلیجے کے ٹکڑے کے گلے سے پھانسی کا پھندا اتار پھینکنے کے لئے اپنی زندگی بھر کی کمائی لٹا دی تھی اور دوسرے سے روشنی چھین کر اسے بینائی سے محروم کردیا تھا اور جس دن اس کی زندگی کو اندھی دنیا کے حوالے کیا گیا تھا اس دن وہ گھر کے دروازے کی چوکھٹ پر بیٹھ کرناجانے کتنی دیر تک پھوٹ پھوٹ کر روتا رہا اوربستی کے بچوں کی طرح بھوکا پیاسا نہ جانے کب تک خاک کے بستر پر ہوا کو اوڑھ کر سوتا رہا – اسے معلوم ہی نہ ہوا کہ اسے کب اور کس نے وہاں سے اٹھا کر کھّری کھاٹ کے جھنگولے میں مستقبل میں جھولنے کے لئے ڈالدیا اور جس کے لئے گھر کی ساری دولت لٹا دی گئی اور دوسرے کو بینائی سے محروم کر دیا گیا ایک تو اس اندھیری کوٹھری سے باہر آگیا لیکن بجائے گھر آنے کے ندامت اور شرمندگی کی وجہ سے اس سواری پر سوار ہو گیا جو اس کو اپنوں سے بہت دور لے جاتی تھی۔ اور وہ اپنے جگر گوشے کے انتظار میں ایک انسانی پنجر میں تبدیل ہو گئی جس میں اس کی حیات تک دو آنکھیں کسی کا انتظار کرتی نظر آتی رہیں۔ اپنی جنّت سے دور ہوجا نے کے بعد آخر اس نے نابینا ہوتے ہوئے قیمتی پتھر جمع کرنا شروع کر دیا اور آج وہ دنیا کے بیش بہا خزانے کا مالک بن گیا پھر بھی وہ بچپن میں چھینی ہوئی اس بینائی کو اب تک نہ پا سکا جس کے زریعے وہ ایک ایسی دولت پا سکتا تھا جس کو کوئی بانٹ سکتا نہ چرا سکتا اور جو زندگی کے آخری لمحہ تک انسان کا ساتھ نہیں چھوڑتی ہے وہ زندگی بھر ایسی دولت جمع کرنے میں لگا رہا جس کی وجہ سے وہ چین سے سو نہیں سکا۔ ہر وقت اس کے لٹنے ‘ کھونے اور چر جانے کا دھڑکا بنا رہتا ‘ جو اس کا ساتھ کبھی بھی چھوڑ سکتی تھی، جو اس کی بینائی واپس نہ لا سکی تھی ایسا قارونی خزانہ اس کے کس کام کا، آخر بہت سوچ سمجھ کر اس نے فیصلہ لیا کہ وہ اپنی تمام دولت اور قیمتی پتھروں سے ایک ایسے مکان کی تعمیر کرے گا جو رنگ برنگی روشنیوں سے ہمیشہ جگمگاتا رہے گا اور اپنی روشنی سے تمام بستی کے اندھیرے کو دور کرے اس بستی کے بچوں کی خوب صورت آنکھوں میں بینائی پیدا کر سکے گا جس سے وہ اس رنگین دنیا کا ہر رنگ دیکھ سکیں۔

تحریر – آل حسن خاں قایم گنج بھارت