ٹیڑھی کون انکاؤنٹر

terekon1

کئی دن کی بڑہی ہوئی داڑھی ، الجھے بے ترتیب بال، جسم بھی میلہ کچیلا، پیر ننگے اور ہاتھ ایک ١٢ بور کی بندق پر رکھے، کمر پر کارتوسوں کی بیلٹ با ندھے، دھول مٹی اور خون سے لتھڑا ہوا وہ سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پرپڑا تھا- دبلا پتلا جسم اور اس کا پیٹ پیٹھ کو لگ رہا تھا- معلوم ہوتا تھا جیسے کئی دن کا بھوکا یا پھر بیمار تھا قصبے میں جیسے ہی یہ خبر پھیلی کہ پولیس نے ایک شاطر بدمعاش ٹیڑھی کون پر مار گرایا ہے تو تجسس میں لوگوں کی بھیڑ جمع ہونے لگی ، بچے، خواتین، بوڑھے اور نوجوان سبھی اس طرف دوڑے چلے جا رہے تھے -ٹیڑھی کون ویسے بھی بہت مشہور جگہہ تھی کیونکہ وہاں پر اکثر و بیشترایسے واقعیات ہوتے رہتے تھے- ایک تو وہ سنسان علاقہ تھا دوسرے قصبے سے شہر کی طرف سے مشرق کی طرف جانے والی سڑک کو دو کلومیٹر کے فاصلے پر جنوب کی طرف سے آنے والا ایک راستہ اس سے ملتا تھا اور مشرق کی طرف کچھ فاصلے پر شمال کی طرف سے بھی آکر ایک اور راستہ اس سے مل جا تا تھا جس سے وہاں پر ایک ٹیڑھا چوراھا سا بن جاتا تھا اس کے بعد سڑک شمال مشرق کی طرف ایک زاویہ حادہ)اکیوٹ انگل( بناتی ہوئی چلی جاتی تھی شاید اس ٹیڑھے چوراہے کو اسی لیے ٹیڑہی کون نام دے دیا گیا تھا جس کے آس پاس آم و امرود کے باغ کثرت سے لگے ہوئے تھے اور باغوں کا یہ سلسلہ بدماشوں کی پناہ گاہ گنگا ندی کی کٹری تک چلا گیا تھا جس سے بدمعاشوں کے لیے بستیوں کے گرد نواح یہ ایک محفوظ اور آسان سا راستہ بن گیا تھا اس لیے برسوں سے بدمعاشوں کے بڑے بڑے گروہ ٹیڑھی کون سے بلا خوف و خطر ہوکر ادھر سے ادھر آتے جاتے تھے- دن میں جو خوشنما جگہہ اپنے سبزہ دار باغات کی وجہہ سے دلکش اور دلنشیں دکھائی دیتی، وہی شب میں بے حد پراسرار اور خوفناک دکھائی دینے لگتی تھی- ایسی بات نہیں تھی کہ پولیس کو بدمعاشوں کے اس متبادل راستہ کی جانکاری نہیں تھی لیکن انہیں بھی اپنی جان اپنے فرض اور ذمے داری سے زیادہ عزیز تھی-بدمعاشوں کو جب کبھی کوئی واردات کرنا ہوتی، تو وہ بہت آسانی اور بلا کسی خطرے کے کسی واردات کو انجام دیتے اور باحفاظت وہاں سے چلے جاتے، اب جب کبھی وہ گاڑیوں کی بھی لوٹ پاٹ اور ساتھ ہی خواتین کے ساتھ عصمت دری جیسی وارداتون کو انجام دینے لگے، تو آئے دن کی ان وا رداتوں سے تنگ آکرعوام کا غصّہ پھوٹ پڑا- قصبے میں احتجاجی مظاہرے ہونے لگے- پولیس کے بھی کان کھڑے ہوئےاور انتظامیہ کی طرف سے عوام کو یقین دہانی کرائی گئی کہ بہت جلد بدمعاشوں کے خلاف ضروری عمل اور ان کی دہشت گردی ختم کرنے کے لیے پراثر قدم اٹھائیں جائیں گے-آج جب ٹیڑھی کون پر ایک شاطر بدمعاش کے انکاؤنٹر کی خبر آئی تو آس پاس کے گاؤں و قصبے کے سبھی لوگ دوڑ دوڑ کر آنے اور وہاں جمع ہونے لگے- ان میں ہی ایک دبلاپتلا کمونسٹ لیڈر بھی تھا جواکثرو بیشتر اپنی معاشی اور جسمانی حالت سے بے خبر بد انتظامی اور ظلم کے خلاف اپنا سینہ تان کر ہر معاملے میں کھڑا ہو جاتا تھا- اس کے علاوہ کئی دیگر پارٹیوں کے چھوٹے چھوٹے لیڈر و کئی اخباروں کے نمائندے بھی پہنچ گئے- اخباری نمائندوں نے پہلے تو اس بدمعاش کی لاش کے کئی زاویوں سے اپنے ڈجٹل کیمروں سے تصویریں کھینچیں پھر پولیس پارٹی کے ساتھ ، اور بعد میں جب پولیس والوں سے لوگ انکاؤنٹر کے بارے میں تفصیل سے جانکاری جمع کرنے لگے، تو اسی وقت بھیڑ میں سے کسی نے آہستہ سے پھسپھسایا،” ارے! یہ تو پاگل ہے، کئی دن سے گھوم رہا تھا-“اس کے بعد کئی آوازیں سنائی دیں،” ارے، ہاں! اسے تو ہم نے بھی دیکھا تھا-” کوئی کہہ رہا تھا کہ میں نے اسے ایک دن ریلوے سٹیشن پر دیکھا تھا تو کوئی کہہ رہا تھا،” میں نے بس سٹینڈ پر دیکھا تھا-“بس پھر کیا تھا اتنا سنتے ہی کامریڈ نےاپنے مخصوس انداز میں سپیچ دینا شروع کر دیا،”کئی روز کا تھا بھوکا، فٹ پاتھ پر پڑا تھا، کرتا اٹھا کے دیکھا تو پیٹ پر لکھا تھا، سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا” اور اس کے بعد پولیس کے سامنے اپنی مانگ کا اعلان کر دیا کہ جب تک کوئی مجسٹریٹ آکر معائنہ نہیں کرلے گا، ہم لاش کوہرگز یہاں سے اٹھنے نہیں دیں گے اور اس کا ساتھ دیگر پارٹی لیڈربھی دینے لگے -پولیس والے جو پہلے سے ایسے حالات کے سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں تھے یکدم آئی اس آفت سے گھبرا گئے لیکن جلد ہی انہوں نے وہاں پر موجود لوگوں کو سمجھا بجھا کرقابو میں رکھنے کی بھر پور کوشش کی ساتھ ہی اپنی صفائی دیتے ہوئے کہا،” لگتا ہے آپ لوگوں کو کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے …یہ تو بہت بڑابدمعاش ہے .. ہم نے کئی گھنٹے زبردست مقابلے کے بعد اسے مار گرایا ہے …….آپ لوگ بلا وجہ ہنگامہ کرنا بند کردیں…..ورنہ سمجھ لیں پھر ہم سے برا کوئی نہ ہوگا-“”اچھا ٹھیک ہے !……..آپ مجسٹریٹ صاحب کو بلائیے …..لاش ان کے آنے کے بعد ہی اب تواٹھےگی-” کئی لوگوں نے ایک ساتھ کہا-‘ ہاں! ایسا ہی ہوگا …….ہم نے خود ہی مجسٹریٹ صاحب کو خبر بھیج دی ہے وہ بس آتے ہی ہونگے اور ساتھ ہی ہمارے دیگر حاکم بھی آرہے ہیں …..آپ لوگ ہماری بات کا یقین کیجئے …..یہ واقعی ایک بدمعاش تھا جسے پولیس پارٹی نے بڑی بہادری کے ساتھ زبردست مڈبھیڑ میں مار گرایا ہے لیکن اس کے دوسرے ساتھی اپنی جان بچا کر بھا گنے میں کامیاب ہو گئے ہیں …..پھر بھی ہمیں اس بات کا پورا یقین ہے کہ ان میں سے بھی ایک دو تو زخمی ضرور ہوئے ہوں گے-“” اس کا نام کیا ہے ؟” ایک پارٹی کے چھٹ بھیئے لیڈرنے پوچھا-” جرمن ! انسپکٹر نے بلا تاخیرجواب دیا-“”جر.ر.. ر. ..من !” ایک دوسری پارٹی کے لیڈرنے بدمعاش کے نام کو دہرایا-” ہاں جرمن! ” اب کی بار ہیڈ کانسٹبل نے اس کی طرف رخ کیا اور اپنی بات زور دے کر کہی-” یہ کیسا نام ہے!……. بدمعاش ہندوستانی اور نام جرمنی !” ایک تیسری پارٹی کےلیڈر نے حیرت ظاہر کی-” ہاں ! بدمعاشوں کے ایسے ہی ولایتی نام ہوتےہیں ……سالوں کے کئی کئی نام ہوتے ہیں کوئی ایک تھوڑے ہی ہوتا ہے جو تمہیں صحیح صحیح نام بتا دیں -” ہیڈ کانسٹبل نے تھوڑا کھسیا کر کہا-” اور اس کے باپ کا نام ؟” کسی نے بھیڑ میں سے پوچھا -“کیا کروگے؟ باپ دادا کا نام معلوم کرکے-” ہیڈ کانسٹبل نے تیز لہجے میں جواب دیا۔” تو بتانے میں کیا حرج ہے؟” ایک نوجوان نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا تو اس سے کچھ فاصلے پر کھڑے دروغہ جی نے اسے غورسے دیکھا اور براسا منھ بنا کر بولے ” ہٹلر !””جب اس کا نام جرمان ہے تو اس کے باپ کا نام ہٹلر تو ہوگا ہی -“نوجوان نے مسخرے انداز میں کہا، تو دروغہ جی نے اسے گھور کر دیکھا -” جب سب جانتے ہو، تو کیوں پوچھ رہے ہو؟” ہیڈ کانسٹبل نے سوال کیا-” اچھا اس کی ذات کیا ہے؟ ” سفید کشتی نما ٹوپی لگائے ایک لیڈر نے آگے بڑھ کر ایک اور سوال داغ دیا-” ذات جان کر کیا کرو گے؟”” کچھ نہیں……..بس یوں ہی پوچھ لیا-“سوال کرنے والے نے بات بنائی -” ذات پات نیتا گری میں کام آتی ہے، اس لیے پوچھ رہے ہو نا-“”ہاں دوانجی آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں-” ایک سوشل ورکر نے آگے بڑھ کر ہاں میں ہاں ملاتےہوئے ایک نیا سوال پوچھ لیا،” ویسے دوانجی ، یہ ہے کہاں کا رہنے والا؟”” ارے صاحب ! ہم آپ کو کیا بتائیں ……ا ن سالے بدمعاشوں کی نہ تو کوئی ذات ہوتی ہےاور نہ ہی کوئ ٹھور ٹھکانہ …….نہ خود چین سے رہتے ہیں اور نہ ہمیں چین سے رہنےدیتے ہیں-“اسی وقت پولیس کے دیگر حاکم بھی پہنچ گئے اور پولیس والوں نے ڈنڈے گھما کر بھیڑ کو دور ہٹا دیا، تبھی مجسٹریٹ صاحب بھی اپنے عملے کے ساتھ حاضر ہو گئے اور آتے ہی اپنے پیشکار کو ہدایت دینے لگے،” پیشکار صاحب! بدمعاش کی لاش اور موقع واردات کا میمو تیار کر لو!”” یس سر ! کہتے ہوئے پیشکار صاحب شاطر بدمعاش جرمن کی لاش کے پاس گئے، تبھی ایک طرف سے اسی کامریڈ نے چیخ کر کہا، سر! یہ بدمعاش نہیں، یہ تو ننگا، بھوکا کوئی بھکاری یا پاگل ہے…….پولیس نے فرضی انکاؤنٹر دکھایا ہے ……ان پولیس والوں کے خلاف سخت قانونی کاروائی کی جانی چاہیے ، جنہوں نے ایک بے گناہ بھوکے، ننگے پیاسے انسان کو ایک ٹکڑا روٹی اور ایک بوند پانی تو دیا نہیں الٹے اس کے پیٹ میں رائفلوں کی گرم گرم گولیاں اتار دیں-“سی- او صاحب پاس میں کھڑے تھے اس کی باتوں سے ان کی برداشت ختم ہو گئی، انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، کا لر پکڑ کر اس انسانی پنجرکو اوپر اٹھایا، تو وہ ان کے ہاتھ پکڑ کر لٹک گیا اور اپنی آزادی کے لیے جہدوجہد کرنے لگا اور جب وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب نہ ہو سکا تو مجبور پرندے کی طرح چھٹنے کے لیے چھٹ پٹانے لگا، لیکن نہ تو وہاں موجود لوگوں کی بھیڑ میں سے اس کی کسی نے مدد کی اور نہ ہی اس پر کسی کو رحم آیا بلکہ کئی طاقتور پولیس والوں نے اسے اپنے مضبوط ہاتھوں سے جکڑ لیا اور پھر پولیس کی ایک گاڑی میں بے رحمی سے پھینک دیا، جہاں گرتے ہی وہ بے ہوش ہو گیا-“اسے کسی ایسے ویران جگہہ پر لے جاکر چھوڑ دو، جہاں سے یہ شیطان شام تک واپسنہ آ پائے….سالہ سرکاری کام میں رکاوٹ ڈالتا ہے-” دیوقامت سی- او صاحب اپنے ماتحتوں کو حکم دے کر بڑبڑائے ،” بہت بوا ل مچاتا ہے سالہ-“” ابھی لیجئے سر! سپاہی نے سی-او صاحب کو سلوٹ مارا-” سر، آپ ! مجسٹریٹ صاحب کو سنبھالیے، تب تک پیشکار صاحب کو لاش اور جاۓ وقوعہ کا معائینہ کروایے دیتا ہوں ……بعد میں ضرورت ہوگی تو اپنے کچھ لوگوں کا بیان بھی درج کروا دونگا-” پولیس انسپکٹر سی- او صاحب کے پاس آکر بہت ادب سے پھسپھسائے-اس درمیان مجسٹریٹ صاحب جیپ سے نیچے اترے اور ٹیڑہی کون کے چاروں طرف نظر دوڑاکر وہاں کے خوشنما ماحول کا جائزہ لینے لگے،” واہ !!! واقعی کتنی خوبصورت جگہہ ہے یہ !……کتنی فریش ائیر ہے یہاں پر!” وہ بدبدائے اور لمبا سانس کھینچ کر اچھی خاصی آکسیجن اپنے پھیپھڑوں میں بھر لی، تبھی ان کی نظر امرود کے باغ میں لگے تازے امرودوں پر جاکر ٹک گئی، ” کتنے اچھے بڑے بڑے امرود لگے ہیں-” ان کے منھ سے اتنا نکلنا تھا کہ سی-او صاحب نے ایک سپاہی کو حکم دیا-” جاؤ ، صاحب کے لیے امرود لے آؤ!”” ابھی لا یا سر! کہتے ہوئے ایک سپاہی آگے بڑھا-” نہیں، میرا من تو کرتا ہے …..انہیں خود توڑ کر کھایا جاۓ-“” تو چلیں…سر !-” کہتے ہوئے سی-او صاحب مجسٹریٹ صاحب کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے چل دیے-اسی وقت ایک بوڑھا آدمی تیز چال سے ان کی طرف آیا، تو سی-او صاحب نے اسے پاس آتا دیکھ کر پوچھا ،” یہ کس کا باغ ہے-“میرا ہے صاحب ! ” اس نے ادب سے جواب دیا -” دیکھو ! صاحب کو تمہارے باغ کے امرود بہت اچھے لگ رہے ہیں ……ذرا ا ن کا ٹیسٹ کرواؤ -“”میں ابھی توڑ کر لا ئے دیتا ہوں صاحب !”” نہیں ! ہم لوگ خود توڑ لیں گے -” سی-ا و صاحب نے ایک بڑا سا امرود توڑ کر مجسٹریٹصاحب کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا،” یہاں کے آ م امرود بہت ذائقےدار ہوتے ہیں -“اس درمیاں ایک کے بعد ایک کئی امرود اس بوڑھے نے جلدی جلدی توڑے اور انہیں اپنی جھولی میں رکھ کر پاس لایا،” یہ لیجئے صاحب !……یہ بہت میٹھے ہیں-“مجسٹریٹ صاحب نے ایک امرود اس کی جھولی سے اٹھایا اور بولے،”بس ایک دو ہی کافی ہیں…..آپ اتنے امرود کیوں توڑ لاۓ ؟صاحب ، کچھ گھر کے لئے رکھ لیجئے ، بچے بھی کھا لیں گے -“” ٹھیک ہے-” سی-او صاحب نے جلدی سے ایک سپاہی کو اشارہ کیا ،” صاحب کی جیپ میں لے جا کر رکھ دو -“”ارے ہاں! آپ تو یہیں رہتے ہیں -” اچانک مجسٹریٹ صاحب کو جیسے کچھ یاد آ گیا ،” ذرا یہ تو بتائیے ! یہ بدمعاش کب سے یہاں پر چھپا تھا ….اور آپ تو اسے پہچانتے ہوں گے -“” نہیں صاحب ! میں نے آج سے پہلے اسے کبھی نہیں دیکھا ……صبح تڑکے پہلے جیپ کی آواز سنائی دی، پھر اس کے کچھ دیر بعد گولیاں چلنے کی آواز آئی ….میں باغ سے جب باہر آیا تو بہت سے پولیس والے کھڑے تھے انہوں نے مجھے باغ میں جانے کو کہا، بعد میں معلوم ہوا کوئی بڑا بدمعاش ما را گیا ہے-“” ارے!….. یہ بڑے میاں کیا جانے، شریف آدمی ہیں -” سی-او صاحب درمیان میں ہی اس کی بات کاٹ کر بولے تو مجسٹریٹ صاحب نے سی-او صاحب کی طرف اپنی گردن گھمائیاور ان سے بھی ایک سوال پوچھ لیا ،” اور ہاں، وہ پتلا دبلا ماکڑ سا آدمی کیا کہہ رہا تھا ، پاگل ہے، فقیر ہے میں کچھ اس کی بات سمجھ نہیں سکا -“مجسٹریٹ صاحب کی بات سن کر سی-او صاحب پہلے تو خوب ہنسے پھر بولے،” ارے، وہ تو ایک پاگل نیتا ہے …..کہیں کھڑا کر دو بولنے لگےگا…..آٹا مہنگا، تیل تیزبکتا رہتا ہے -“” صحیح کہتے ہیں آپ!……نیتا تو سبھی پاگل ہوتے ہیں ……ایک تو ہم لوگوں کو کوئیکام نہیں کرنے دیتے، دوسرے عوام کو بھی پاگل بناۓ رہتے ہیں ، ہر وقت سرکاری کام میں اپنا غیر ضروری دخل کرنے کے عادی ہو گئے ہیں …..خود بھی پریشان رہتے ہیں اور ہمیں بھی اپنے ڈھنگ سے کام نہیں کرنے دیتے ہیں اور عوام کو بھی جھوٹے وعدے کرکے گمراہ کرتے رہتے ہیں -“ادھر دونوں بڑے حاکم آپس میں غپ شپ کر رہے تھے ادھر پیشکار صاحب جائے واردات کا معائینہ کرتے ہوئے پوچھ رہے تھے ،” انسپکٹر صاحب !……..اس بدمعاش کے بارے میں آپ نے جو کچھ بھی بتایا،اس کے بارے میں تو میں کچھ نہی کہہ سکتا ، کیوںکہ وہ تو آپ کے تھانے کا ریکارڈ بتاۓ گا، لیکن میری ایک بات سمجھ میں نہیں آئی کہ جب پولیس کی گولیوں سے یہ زخمی ہو گیا توبجاۓ بھاگنے کے اپنی بندوق پراطمینان سے ہاتھ رکھ کر بڑے آرام سے لمبا لمبا سڑک پر یہ کیوں لیٹ گیا-“” پیشکار صاحب! بھاگتا کیا سالہ؟…جب ہم اسے بھاگنے دیتے تب نا !……اور بندوق ہی تو ان کی سب کچھ ہوتی ہے …….جسے مرتے دم تک نہیں چھوڑتے ہیں یہ لوگ!”” دوسری بات یہ ہے انسپکٹر صاحب یہ بدمعاش جو پولیس کی وردی پہنے ہے وہ اس کےجسم پر فٹ نہیں ہے ……دیکھ رہے ہیں اس کی ٹانگیں کھلی ہیں اور کمر تک بھی پینٹ نہیں پہنچ رہی ہے دیکھئے! فلائی کی چین بھی کھلی ہے جس سے اسکی بے پردگی ہو رہی ہے جسے دیکھ کر شرم محسوس ہو تی ہے ……ایسا لگتا ہے اس پینٹ کی چین بھی خراب ہے -“” اب کیا بتاؤں پیشکار صاحب سپاہیوں کا کام تو ایسا ہی ہوتا ہے ……پیشکار صاحب آئندہ کے لیے وارنننگ دے دونگا …… انکاؤنٹر کے معاملے میں پوری احتیاط برتا کریں ، کسی قسم کی لا پروائی برداشت نہیں کی جائےگی -“تھوڑی دیر میں ہی مجسٹریٹ صاحب کی جیپ کا ہارن بجا اور پیشکار صاحب اپنی سرکاری کاغذات سنبھالتے ہوئے تیز تیز قدموں سے اسے طرف چلے گئے ، جہاں مجسٹریٹ صاحب جیپ میں بیٹھے ہوئے ان کے آنے کا انتظار کر رہے تھے- ان کے جاتے ہی پولیس والوں نے بدمعاش کی لاش سیل کر پنچ نامہ بھرا اور پوسٹ مارٹم کے لیے بھیج دیا۔ اس کے بعد لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کی طرف لوٹنے لگے- ان ہی میں سے کچھ دیہاتی خواتین آپس میں بات چیت کرتی ہوئی جا رہی تہیں -“جی جی ! موہے کا معلوم تھو. ……جے اتنو بڑو بدماس ہے……میں نے سوئم جا کو بس سٹینڈ پے با دن دیکھو تھواور جاکو پوریاں بھی دئی تھیں کھان کے لئے ….بہت بھوکا لگ رو تھو -“”بدماس بہروپیا ہوت ہیں ……سا دھو، سنت، سنیاسی ، بھکاری کساؤ کو روپ دھر لیت ہیں -” دوسری نے جواب دیا -” اور پاگلو بھی بن جات ہیں -” تیسری نے بھی دونوں کے ساتھ ہاں میں ہاں ملائی -کچھ دنوں بعد ٹیڑھی کون انکاؤنٹر سے متعلق پولیس پارٹی کوسرکار کی طرف سے انعاموں کا اعلان کیا گیا اور آج اخباروں میں ان سبھی لوگوں کے نام کی فہرست تصویروں کے ساتھ شایع ہوئی تھیں جو میں بیٹھا پڑھ رہا تھا انسیٹ میں جرمان ڈکیت کی بھی تصویرچھپی تھی – اسی وقت ایک فٹے حال بوڑھی میرے دفتر میں آئی-” بابو جی ! لوگ کہتے ہیں آپ سب کی خبر رکھتے ہیں ……میرا بیٹا بھی کھو گیا ہے….کیا آپ مجھے بتا دیں گے کہ وہ کہاں ملے گا ؟”” ارے واہ ! میں کیسے بتا سکتا ہوں کہ آپ کا بیٹا کہاں ملےگا؟”” کیوں ؟……. کیا آپ اخبار والے بابو جی نہیں ہیں ؟”” ہاں ! میں اخبار والا تو ہوں ……لیکن میں کیا جانو آپ کون ہیں ؟…..آپ کا بیٹا کون ہے ، وہ کیا کرتا ہے؟”” بابو جی! میں سب بتاتی ہوں …..بس آپ میرے لال کو مجھ سے ملوا دیجئے -” کہتی ہوئی وہ تھکی تھکی وہیں فرش پر بیٹھ گئی -میں نے کہا “کرسی پر بیٹھ کر بتاؤ-“اس نے کہا “نہیں میں یہیں پر ٹھیک ہوں……..بابوجی !” وہ تھوڑا رک کر بولی ،” میریایک جوان خوبصورت بیٹی تھی جس کی عجت گاؤں کے کچھ دبنگوں کے لڑکوں نے مل کر لوٹ لی تھی اور اس نے لوک لاج کے کارن پھانسی لگا کرموت کو گلے لگا لیا تھا- میرا بیٹا اس گم میں پاگل ہو گیا……جانتے ہو بابو جی! پچھلے چھے مہینے سے میں اسے تلاس کر رہی ہوں لیکن وہ کہیں ملتا ہی نہیں -” کہہ کر وہ افسردہ ہو گئی-” آپ کے بیٹے کا نام کیا ہے؟…….اس کی عمر کیا ہے ، وہ کیسا دکھتا ہے …..کچھ بتاسکیں گی آپ؟” میں نے کئی سوال ایک ساتھ کر دیے تو وہ جلدی سے بولی-” ہاں! ہاں! کیوں نہیں، ا بھی بتاتی ہوں ……..اس کا نام رامو ہے اور وہ بس تمہاری عمر کا ہوگا اور ہاں ! میرے پاس اس کا ایک پھوٹو بھی ہے-” اس نے جھٹ سے اپنی گندی سی پوٹلی کھولی اور اس میں کچھ تلاش کرنے لگی -” یہ لیجئے بابو جی!” اس نے ایک میلی کچیلی مڑی تڑی فوٹو میرے ہاتھ میں تھما دی-” یہ آپ کا بیٹا ہے !” میں نے غور سے فوٹو دیکھتے ہوئے چونک کر پوچھا-” ہاں بابو جی ! لگتا ہے آ پ نے اسے کہیں دیکھا ہے ……جلدی بتائیے بابوجی ، میں اس سے ملنے کے لیے تڑپ رہی ہوں، بہت دنوں سے میں نے اسے نہیں دیکھا ہے- میری آنکھیں اس کے انتظار میں پتھرا گئیں ہیں -” کہہ کر وہ ففک پڑی -اس کے سوال اور اس کی حالت دیکھ کر میں پریشان ہو گیا، ساتھ ہی اپنے اندر ایک عجیب سی کیفیت محسوس کرنے لگا، پھر خود کو سنبھالتے ہوئے اس سے کہا ،” نہیں ! میں نے اسے کہیں نہیں دیکھا ہے-” کہتے ہوئے میں جلدی سے اٹھا اور فوٹو اس کے ہاتھ میں تھما کر باہر کی طرف چل دیا ، اب میں یہ بات اسے کیسے بتاتا کہ تیرے بیٹےکی پھوٹو کچھ دنوں پہلے ٹیڑہی کون انکاؤنٹر میں مارے گئے جرمن بدمعاش کی فوٹو سے ہوبہو ملتی جلتی ہے-
آل حسن خاں قاںٔم گنج انڈیا۔