باعزت بری



 

باعزت بری

 

“سنا ہے ! رام لعل نے اپنی سیتا جیسی پتنی کو گھر سے نکال دیا ہے۔”

“کیوں؟”

“یاد کرو ان کے گھر میں ایک بار کلوا چوری کرتے پکڑا گیا تھا۔”

“ہاں یاد آیا ‘ اس کا چوری میں چالان بھی ہوا تھا اور عدالت نے اس پر چوری کا چارج ہمارے سامنے لگایا تھا۔”

“کالو رام عرف کلوا تم پر الزام ہے کہ تم آدھی رات کو رام لعل کے گھر میں چوری کے ارادے سے داخل ہوئے اور موقع واردات پر پکڑے گئے؟

“جی ! یہ سچ ہے۔”

“تو کیا تم اقبالِ جرم کرتے ہو؟”

“نہیں صاب!”

“پھر تم پر مقدمہ کیوں چلا؟”

“رنجشن!۔”

“اچھا تمہیں اپنی صفائی میں کچھ کہنا ہے؟

“جج صاب! میں بے گناہ ہوں ‘ آپ میری بات کا یقین کیجیئے۔ میں چور ہوں نہ میں نے چوری کی ہے ‘ مجھ پر چوری کاجھوٹا الزام لگایا گیا ہے۔”

کلوا پکّا چور تھا یا نہیں یہ تو کسی کو معلوم نہیں لیکن چوری کرتے ہوئے کبھی پکڑا نہیں گیا تھا پہلی بار رام لعل کے گھر پکڑا گیا تو محلّے والوں نے بھی اس کی خوب دھنائی کی تھی چونکہ وہ موقعہ واردات پر رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا اس لئے اس کو سزا سے بچ پانا ناممکن نظر آتا تھا ‘ اس لیے وہ پریشان رہتا تھا لیکن اس کا وکیل پوری طرح مطمئن نظر آتا تھا جبکہ استغاثہ کی طرف سے اس کے خلاف گواہوں کے بیان اور دیگر ثبوت عدالت میں مستعدی سے پیش کیے جا چکے تھے جو اس کو سزا دلانے کے لئے کافی تھے پھر بھی آج وہ اپنے وکیل کے ساتھ صفائی میں خود کا بیان درج کرانے کے لئے پورے اعتماد کے ساتھ عدالت میں پیش ہوا۔

“کیا تم واردات والی آدھی رات کے اندھیرے میں رام لعل کے گھر میں داخل ہوئے تھے۔؟کلوا کے وکیل نے سوال کیا۔

“جی !”

“کیا تم نے اس گھر سے نقدی اور گھر کے قیمتی سامان کے ساتھ ہی زیورات وغیرہ چوری کی نیت سے اٹھائے تھے۔”

“نہیں صاب!”

“تو کیا بتا سکتے ہو’ تم رات کے اندھیرے میں آخر وہاں کیا کرنے گئے تھے؟”

“وکیل صاب! بتا تو سکتا ہوں لیکن مجھے سرم آتی ہے؟”

“شرم کروگے تو سمجھ لو چوری کے جھوٹے الزام میں جیل کی ہوا کھاؤگے اور وہاں چکّی پیسوگے ‘ اس لئے عدالت میں جج صاحب کو سب کچھ سچ سچ بتادو۔”

“اچھّا وکیل صاب آپ جب مجبور کرتے ہو تو بتائے دیتا ہوں۔ میں رام لعل کی بیوی کے بلانے پر ان سے ملنے اکثرجایا کرتا تھا اور جس دن پکڑا گیا ‘ اس رات بھی چوری کے ارادے سے نہیں گیا تھا۔ میں رام لعل کی پتنی کے ساتھ ابھی کپڑے اتار کر لیٹا ہی تھا کہ تبھی شور مچا کر اس نے مجھے دھر دبوچہ۔

“عدالت میں موجود بھیڑ میں پُھس پُھساہٹ شروع ہو گئی اور عدالت نے دونوں فریق کے وکلاء کی بحث سُننے کے بعد اپنا حُکم سُنایا۔”

کالو رام عرف کلوا یہ عدالت تمہیں چوری کے الزام سے باعزّت بری کرتی ہے۔”

کلوا کے باعزت بری ہونے کے بعد سے علاقے میں جہاں چوریاں بڑھ گئیں وہیں رام لعل اور ان کی بیوی کے درمیان شک کی کھائی پڑ گئی جو آہستہ آہستہ اور گہری ہوتی چلی گئی کیونکہ رام لعل کو کلوا کے پکڑے جانے کے دن اپنی بیوی کا یہ جملہ بار بار یاد آکر پریشان کرتا رہتا تھا

دیکھو جی! کلوا کو سب نے کافی مار پیٹ لیا ہے اب اس کو چھوڑ دو اور پولیس کے حوالے مت کرو کیونکہ ہمارا کوئی سامان چوری نہیں ہوا ہے”۔

 

تحریر – آل حسن خاں قایم گنج انڈیا