تولا بابا

tola-baba1

افسانہ” تولا بابا” – افسانہ نگار – آل حسن خاں

 

میرےاسکول میں قدم رکھتے ہی سعید نے پکارا ” لو ایک اور مہارتھی پدھار رہے ہیں “لو ایک اورعظیم شخصیت تشریف لا رہی ہے”

” میں تو ہر روز حاضری لگا جاتا ہوں …….بات کرو گپتا جی کی جو ماہ میں ایک بار منھ چمکاتے ہیں ” یہ کہکر میں بیٹھ گیا

” باجپئی جی ! میں کیا سعید ہوں جسکو پڑھانے کے اتیریکت(علاوہ ) کوئی کام نہیں ہے اکلوتا داماد ہوں – میرے پاس اس سڑھی سنستھا(ادارہ) کے لئے سمے(وقت) ہی کہاں ہے؟”

“تو چھوڑ کیوں نہیں دیتے گپتا جی ؟”

چھوڑ تو دوں سعید بھائی! تم لوگوں سے محبّت ہے اس لئے چلا آتا ہوں –

” ایکدم جھوٹھ ! ویتن(تنخواہ) منی آرڈر سے پہنچ جاۓ تو ورش(سال) بھر نہیں دکھائی دوگے-”

” اے یادو ! پہلے اپنے گریبان میں جھانکو میری تو مجبوری ہے پرنتو(لیکن) تم گاؤں میں رہ کر بھی نہیں آتے ہو –”

” میں بھی مجبور ہوں شری مان جی(موحترم) میری کھیتی ہے’ جانور ہیں اور مقدموں کے لئے کچہری کے چکّر کاٹنے پڑتے ہیں پھر بھی جو سمے(وقت) بچتا ہے میں تم سے کہیں ادھک(زیادہ) اوپستہت(حاضر) ہوتا ہوں-”

” چھوڑو یارو ! ہم سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں کوئی ایک دن تو کوئی چار دن آتا ہے –” ماحول گرم ہوتے دیکھ کر میں نے بات ہنسی میں اڑا دی- اپنا سعید تو ہم سب کی ڈیوٹی پوری کر دیتا ہے –

” تبھی تو ہیڈ ماسٹر کا چارج پایا –” سریواستو مسکرایا –

” یہ تو جیادتی(زیادتی) ہے ” کتھیریا نے شکایت کی ” چانس میرا تھا دے دیا انہیں –”

” بھیا تمہیں کیسے ملتا ؟” سریواستو نے بڑے تعجب سے پوچھا ” تم مجھ سے کیا یادو تک سے جونیر ہو’ ہاں اگر باجپئی جی یا گپتا جی شکایت کرتے تو ٹھیک ہے دونوں سعید سے سینیر ہیں-”

” میں شیڈولڈ کاسٹ کنڈیڈیٹ(تخسو چت ذات ) ہوں –”

” اچھا تو پروموشن میں بھی رزرویشن چاہیے” گپتا جی نے طنز کیا ” پڑھنا آے نہ پڑاھانا…….پھر بھی نوکری مل گئ یہ کیا کم بات ہے ”

” رزرویشن ہمارا ادھکار ہے ادھکار( رزرویشن ہمارا حق ہے حق)-”

” ادھکار نہیں ہم سرونوں کی دیا کہو’ دیا ( حق نہیں ہم اونچی ذات والوں کا رحم کہورحم) –”

” سریواستو بھی چڑھ لئے تو میں نے دل جوئی کی ” ارے کتھیریا ! کاہے کو دند(شور) مچاۓ ہو- دونوں ایک ہو تم شیڈولڈ کاسٹ سعید الپ سنکھیک(دونوں ایک ہو تم تخسوچت ذات سعید اقلیت) –”

“واہ باجپئی جی! الپ سنکھیک (اقلیت) میں ہوں یا تم سب-”

” ہم؟” سب نے تعجب سے پوچھا –

” ہاں ! بہو سنکھیک(اکثریت) کا ڈھونگ کرتے ہو ‘ حالانکہ تم سب الگ الگ الپ سنکھیک(اقلیت) ہو –”

” وہ کیسے ؟” کتھیریا حیرت میں پڑ گیا –

” ارے بھیا ! سیدھی سے بات ہے – جب سب ایک ہو پھر ہریجن(نیچی ذات ) ‘ سرون(اونچی ذات )’ بیک ورڈ ‘ فارورڈ کیا ہے ؟”

” کون کہتا ہے ہم سب ایک نہیں ہیں ؟”

” یار سریواستو ایک ہو تو منڈل کمیشن سے کیوں بھڑکتے ہو ؟”(اقلیتی پسماندہ غریب اور چھوٹی ذاتوں کے لئے بناےٴ گئے کمیشن کا نام منڈل)

“وہ اس لئے میاں ! کہ اس سے سماج جا تیوں میں بٹ جاےگا –”( کہ اس سے معاشرہ ذاتوں میں بٹ جائےگا)

” وہ تو ہمیشہ سے بٹا ہے –”

جوشیلی بحث کا موضوع منڈل بنا تو میں نے جھٹ کمنڈل کی کمند پھینکی ” نہیں ہم کبھی نہیں بٹے ہیں – ہم سب ہندو ہیں- وشواس(یقین) نہ ہو تو تم پو چھہ لو –”(کمنڈل ہندو تنظیموں کی مذہبی تحریک کا نام )

” کیا ؟”

یہ ہی کے رام مندر ہم سب کا ہے کہ نہیں ؟”( رام مندر جسے بابری مسجد کی جگہ پربنانے کی ہندو تنظیموں کی تجویز ہے )

” ارے پنڈت جی ! وہ تو دھرم(مذہب) کا معاملہ ہے –”………

” مندر تو ہم سب کا ہے-” کتھیریا چہکا باقی نے گردن ہلائ

” پھر تو ہریجن(اچھوت ذات/چھوٹی ذات) بھی اس کا پجاری بن سکےگا ؟’ سعید نے ایک اور تیر چھوڑا تو میں گھبرا گیا لیکن بھلا ہو گپتا جی کا وقت پر مورچہ سمحال لیا – ” وہ پجاری بنے یا نہ بنے – لیکن ہم تمہیں یہاں نہیں رہنے دیں گے –”

” ہم تویہیں رہینگے اوپر نہ سہی تو اس زمین کے نیچے لیکن فکر کرو اپنی چتا( ہندو مردوں کو جلانے کی رسوم ) کی سب راکھ ہوا میں اڑ جاےگی –”

” اڑ نہیں جاےگی میاں ! یہ کہو کہ پورے برھمانڈ(عالم) میں چھا جاےگی –”

گپتا جی اور سعید کی گرما گرم بحث سنتے ہی سب قہقہے مارنے لگے لیکن گپتا جی نے کھسیا کر سیدھا وار کیا-” خیر میاں! تم کہیں بھی رہو لیکن ہم مندر تو وہیں بنایں گے –”

” اتنا آسان نہیں ہے ……….وہ جگہ مسجد کی ہے اور ہمیشہ مسجد کی رہےگی ……ہاں اگر عدالت مسجد سے پہلے وہاں مندر بتاتی ہے تو اور بات ہے –”

” نیالیہ کیا نرنے کریگا ‘ یہ ہماری بھاؤناؤں کا پرشن ہے –”(عدالت کیا فیصلہ کریگی ‘ یہ ہمارے جذباتوں کا سوال ہے )

” گپتا جی بھاونایں(جذبات) ہماری بھی ہیں –”

” تمھاری بھاونایں(جذبات) کیا ہمارے برابر ہیں _”

” کہیں بھاؤناؤں میں بھی انتر ہوتا ہے ؟”( کہیں جذباتوں میں بھی فرق ہوتا ہے)

” ہاں میاں ہوتا ہے !”

اور اس سے پہلے کہ بھاونایں رنگ لاتیں چپراسی ٹپک پڑا ” صاحب بچّے بھاگ گے –”

” کہاں ؟” سعید بیچین ہو گیا –

” تولا بابا کو دیکھنے –”

” وہ جو صبح سے تیراہے والے پیپل کے نیچے آسن جماۓ بیٹھے ہیں ؟”

” جی یادو جی !-”

” چلو انہیں سے نرنے(فیصلہ) کراتے ہیں ……سنا ہے بہت پہنچے ہوے ہیں –” کتھیریا نے تجویز رکھی اور سب مان گے-”

تھوڑی حیلہ حوالہ کرکے سعید بھی چل دیا –

الجھے بال ‘ بڑھی ہوئی داڑھی ‘ لاغر جسم ‘ میلے کچیلے ‘ چندھیائی آنکھوں والے بابا کے درشن(دیدار) کر میں نے سوچا ” آج کل رام جانکی رتھ ‘ گا ے کی پونچھ ‘ رام جیوتی ‘ایک روپیہ ایک اینٹ ‘ چرن پادوکا پوجن ‘ رام کتھا ‘ رام پتا کا ‘ رام پرساد اور رام رنگ کے ابھیانوں(مہمات) سے آدمی کتنا توہم پرست ہو گیا ہے کہ پاگلوں کو بھی سادھو’ سنت’مہاتما یا پیر’ فقیر سمجھنے لگا ہے –

( “آج کل رام جانکی رتھ ‘ گا ے کی پونچھ ‘ رام جیوتی ‘ایک روپیہ ایک اینٹ ‘ چرن پادوکا پوجن ‘ رام کتھا ‘ رام پتا کا ‘ رام پرساد اور رام رنگ” یہ سب ان مہمات کے نام ہیں جو ہندو مذھبی اور سیاسی پارٹیوں نے بابری مسجد کو شہید کرنے کے لئے چلاے تھے )

جواب کے انتظار میں تپتی دوپہر ڈھلنے لگی اور جب بھوک پیاس ستانے لگی تو ہم نے ایک دوسرے کو کھسکنے کا اشارہ کیا’ تبھی گپتا جی نے آخری بار بڑی عقیدت اور عاجزی سے پھر اپنا سوال دہرادیا ” مہاراج بتا یے نا! کس کی بھاونایں ادھک ہیں ؟”(کسکے جذبات زیادہ ہیں)

” برابر’ یہ دیکھو! –” کہے کر بابا نے اپنا ہاتھ پھول مالاؤں سے اوپر اٹھایا – جس میں ایک ترازو لٹک رہی تھی – جسکی ڈنڈی ٹہنی کی اور پلڑے مٹی کی پیالیوں کے تھے-

تولا بابا کی خاموشی ٹوٹتے ہی گپتا جی پاگلوں کی طرح چیخنے لگا –”پاگل ہے یہ تو بھاونایں(جذبات) ترازو میں تولتا ہے – کیا ہمارے دیش(ملک) کے نیتا(لیڈر) پاگل ہیں جو بھاؤناؤں کا انتر بھلی بھانت جانتے ہیں ؟”

سعید’ یادو ‘ کتھیریا اور سریواستو حیران پریشان اسے سمجھا رہے تھے اور میں تذبذب میں کھڑا سوچ رہا تھا ” ہے بھگوان ! واستو میں پاگل کون ہے وہ لوگ یا یہ تولا بابا ؟”

 

آل حسن خاں”رہبر’ قایم گنج ‘انڈیا