چمپیا


Champia

عنوان : “چمپیا” تحریر : آل حسن خاں – قائم گنج، انڈیا۔

میری حیرت کی اس وقت کوئی انتہا نہ رہی جب میں نے اپنے کچھ فاصلے پر ایک مادر زاد جسم کو حرکت کرتے پایا – اس سنسان ویرانے میں ایک الہڑ جوانی سبز مخملی گھاس کے بستر پر دنیا و مافیہا سے بے خبر انگڑائی لے رہی تھی چاندنی کی شوخ شعائیں اس کی جوانی سے تنی ہوئیں چکنی چھا تیوں پر مستی اڑانے کے چکّرمیں کچھ پل ٹھہر جانے کی ناکام کوشش کر رہی تھیں پہاڑی مناظر اور مہیب سنّا ٹے میں ماحول پر اسرار ہوتا جا رہا تھا – خوف و دہشت کی ایک سرد لہر میرے پورے وجود کو کنپکپا گئی تھی اور میرا دماغ ماؤف ہو گیا ساتھ ہی مجھے اپنا آدھ جسم پتھر کا معلوم ہونے لگاجس کی وجہ سے مجھ میں ایک بھی قدم آگے بڈھانے یا پیچھے ہٹانے کی طاقت باقی نہ رہی تھی اس لیے میں اپنے اوسانوں پر پوری طرح قابو پانے کی کوشش کر رہا تھا تبھی میں نے دیکھا اس نے ایک دلربا انگڑائی کے ساتھ ہی اپنا مر مریں بازو چہرے سے ہٹایا تو چھوٹے سیاہ گھنگھرالے بالوں سے گھرا ہوا اس کا پرکشش چہرہ نظر آیا جسے دیکھتے ہی مجھے خیال گزرا کہ ہو نہ ہو یہ صورت میری جانی پہچانی ہے میں کسنے اپنی آنکھیں بند کر اپنے حافظے پر زور ڈالنا شروع کیا – تھوڑی کوشش کے بعد ہی پردہ سیمیں پر ایک دھندلی شکل بن کر صاف ہوتی چلی گئی اور برجستہ میرے منھ سے نکلا –

” ارے یہ تو چم …..پیا….ہے ….چمپیا !”

جب میں نے ہوش سنبھالا اس وقت میری عمر آٹھ یا نو سال کے قریب رہی ہوگی اور چمپیا کی پچیس برس کے آس پاس لیکن وہ اس وقت بھی قدرتی لباس زیب تن کئے رہتی تھی وہ گھنٹوں ایک ہی جگہ پر بیٹھی خلا میں گھورتی رہتی تھی یا پھر بڑبڑا تی رہتی تھی جیسے کسی سے جھگڑا کر رہی ہو لیکن وہ کیا کہتی تھی کس زبان میں بولتی تھی اسے میں تو کیا کوئی بھی نہیں سمجھ پا تا تھا ہاں یہ بالکل درست تھا کہ وہ اپنا کچھ درد ضرور بیان کرتی تھی لیکن اس غریب کے درد کو جاننے کے بھلا یہاں کس کو فرست تھی پھر وہ تو چمپیا دیوانی کے نام سے مشہور تھی اس کے باوجود اس نے کبھی کسی پر پتھر نہیں برساۓ اور نہ کبھی کسی سے کچھ مانگتے ہوئے میں نے اسے دیکھا-

وہ اپنی پیاس گندی نالی کے پانی سے بجھا لیتی اور اسی گندی نالی کے پانی سے جب چاہتی نہا بھی لیتی- اکثر و بیشتر نالی کے پانی سے گھنٹوں غرارے اور کلیاں کرتی رہتی- اسی سے اپنا منھ ہاتھ دھو لیتی پھر بھی وہ پوری طرح صحت مند نظر آتی تھی اس کا بدن سڈول او جوانی سے بھرپور تھا اس کے چہرے پر پھولوں سی رعنائی اور شگفتگی قائم تھی جو ایک حسین ترین نو عمر دوشیزہ کے چہرے پر دکھائی دیتی ہے اور یہ انتہائی حیرت کی بات تھی کیونکہ مجھے یاد ہے کہ گھر سے لیکر سکول تک گندگی سے بچنے کی کتنی ہی ہدایتیں سننے کو ملتی تھیں تاکہ ہم تندرست و توانا رہ سکیں- پھر بھی ہم بیمار پڑ جاتے تھے اور وہ غلاظت میں رہ کر بھی تندرست و توانا بنی ہوئی تھی-

شہر میں پھر بھی کچھ ایسے ہمدرد اور بھلے انسان تھے جو اس کی برہنگی اور بھوک و پیاس کو برداشت نہیں کر پاتے تھے اس لیے رات کے اندھیرے میں اسے اچھے رنگین کپڑے پہنا دیتے جنہیں وہ کچھ ہی دیر بعد شاید اپنے تن سے جدا کر دیتی اور پھر وہ اپنی اصلی حالت میں آجاتی- اس کے سامنے زمین پر وہ کپڑے مٹی لگے ہوئے دینے والے کو اپنا منھ چڑھاتے رہتے- کوئی اس کے جوں بھرے سر سے غلیظ بالوں کو صاف کر دیتا یا کرا دیتا لیکن وہ کچھ دن بعد اس کے سر پر پھر کالے چمکیلے گھنگھرالے بال نظر آنے لگتے- کوئی اس پر مہربان ہوکر کئی قسم کی مٹھائیاں اور پوریاں کچوریاں اس کو لاکر دے جاتا ، جن کو معلوم نہیں وہ کتنا کھاتی تھی کیونکہ میں نے اکثر اس کے سامنے یہ سب سامان پڑا دیکھا تھا جس کو کھانے کے لیے شہر کے کتے اس کے آس پاس کھڑے کھاتے رہتے تھے-

وہ اپنے سامنے کچھ پتھر کے ٹکرے بھی رکھ لیتی تھی اور استنجا جیسا عمل بھی کیا کرتی تھی جسے دیکھ کرمجھے بڑی حیرت ہوتی تھی اور میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ آخر اس غلیظ پلید چمپیا کو بھلا استنجا لینے کی کیا ضرورت ہے- وہ ایک پتھر اپنی جگہ سے اٹھاتی اور اس کے نوکیلے پن کی پرواہ کئے بغیر اپنے جسم کے انتہائی حساس ترین حصّے پر رکھ کر کچھ بڑبڑاتی جاتی اور پھر دوسرا تیسرا پتھراٹھاکر یہی عمل دہراتی پھر اسی جگہ پر رکھ دیتی اس کے بعد انتہائی غصّے میں ان سب پتھروں کو ہاتھ بڑھا کراپنے سے دور کر دیتی – اکثر اس کے پاس پڑے ہوئے قیمتی ملبوسات میں خون کے داغ نظر آتے، جسے میں اپنی کم عمری کی وجہ سے سمجھ نہیں پا تا تھا اور سمجھتا تھا کہ یہ ان نوکیلے پتھروں کے کھیل سے شا ید زخمی ہو گئی ہے-

ایک دن مظلوم چمپیا اچانک کہیں غائب ہو گئی اور وہ پھر کبھی دکھائی نہیں دی- اس کے چلے جانے کے بعد اس کی جگہ پر کئی پاگلوں نے آکر ڈیرہ جمایا لیکن وہ زیا دہ دنوں تک ٹکے نہیں- شہر میں یہ بات عام ہو گئی کہ جس جگہ پر چمپیا رہتی تھی وہاں پر ایک آدھ پاگل بنا ہی رہتا ہے لیکن یہ بات آگے چلکر غلط ثابت ہوئی کیونکہ کافی عرصے تک نا معلوم کیوں کوئی دوسرا پاگل اس جگہ کو اپنا مسکن بنانے کی جرّت نہ کر سکا – ہو سکتا ہے پاگلوں نے بھی یہ جگہ اپنے لیے مناسب یا محفوظ نہ سمجھی ہو – کیونکہ پاگل اپنی روداد بیان کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے وہ اپنی فریاد بھی کسی سے کرنے کے لائق نہیں ہوتا ہے اور اگر وہ اس کے باوجود اپنی پریشانی کو ظاہر کرنے کا کوئی طریقہ اختیار کر بھی لے تو اس کی وہ تمام حرکات و سکنات لوگوں کو اس پر ہنسنے اور تالیاں بجانے کا سامان دستیاب کرا دیتیں ہیں اور کبھی کبھی اس کے جواب میں اہل خرد کے ذریعے اسے ستانے کے لیے اپناۓ جانے والے جدید طریقوں سے اس کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے جس سے اسے اپنی جان بچاکر بھاگنے اور اپنے سے انہیں دور رکھنے کے علاوہ اس کے پاس اور کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا ہے-

ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کے مجھے وہ دن بھی یاد آگیا جب شہر میں ایک دن چمپیا کی وارث دھنوں مجھے پہلی بار دکھائی دی تھی – میں بازار سے گھر کی طرف چلا جا رہا تھا کہ ایک شور سنائی دیا – سامنے نظر اٹھاکر دیکھا تو بس دیکھتا ہی رہ گیا – عجیب و غریب منظر تھا چند اوباش لڑکوں سے آگے آگے ایک کمسن الہڑ دوشیزہ بیباک مستانی چال چلتی ہوئی چلی آرہی تھی جن کے پیچھے کچھ بچے بھی شور مچا رہے تھے جنہیں اوباش چھوکرے ڈانٹ کر بھگا رہے تھے اسے دیکھتے ہی مجھے چمپیا یاد آگئی مگر شکر تھا کہ یہ اسکی طرح برہنہ نہیں تھی پھر بھی اسے دیکھ کر میرے دل کو ایک زبردست دھکّا لگا اور میرے منھ سے برجستہ یہ الفاظ نکل پڑے-

” یا خدا رحم کر …….یہ کس کی عزت ہے ……..جو سرے عام نیلام ہونے جا رہی ہے-” میرے ذہن میں یہ سوال برق کی مانند کوندنے لگا ” کون ہے یہ ؟…….آخر کون ہے یہ ؟”

اس کے ساتھ آنے والے جوشیلے مجمع سے بچنے کے لیے میں ایک طرف دبک کر دیکھنے لگا وہ آسمانی رنگ کا جمپر اور غرارہ پہنے تھی اور اسی رنگ کا دوپٹہ اس کے گلے میں بڑی لاپروائی سے پڑا تھا جو اس کے بڑے گلے کے جمپر سے ابلتی ہوئی جوانی کی پردہ پوشی سے جی چرا رہا تھا اس کا چہرہ شباب کی گرمی سے بری طرح تمتما رہا تھا جس سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ اپنے ہوش و حواس میں نہیں ہے اس کے پیچھے پیچھے لوگوں کی بھیڑ بڑھتی چلی جا رہی تھی جب وہ آگے بڑھ گئی تو میں بھی دعا ئے خیر پڑھتا ہوا گھر چلا گیا –

کچھ ہی دن بیتے تھے کہ اس کے چرچے عام ہو گئے وہ ایک غریب خاندان کی عصمت تھی شادی بھی ہو چکی تھی لیکن اب اس کو اپنے سسرال یا مائکے میں کوئی ٹھکانا باقی نہیں تھا سب اس سے لاتعلق ہو گئے تھے کیونکہ وہ اب نیم پاگل قرار دی جا چکی تھی لوگ کہتے اس خود غرض دنیا میں جب آج کوئی کسی کا نہیں ہے تو بھلا ایسے دیوانوں کا کون پرسان حال ہوگا اس سے متعلق کئی قسم کے قصے وللہ عالم صحیح یا غلط لوگ چٹخارے لے کر ایک دوسرے کو سنایا کرتے تھے – کوئی کہتا جانتے ہو اس سالی دھنوں نے ایک دن اپنےگھر کی ساری چھپکلیاں جھاڑو سے مار کر اس کی ترکاری بنائی اور اپنے شوہر کو کھانے کو رکھ دیں – وہ بیچارہ اس دیوانی سے اتنا پریشان ہوا کہ ایک رات اس کو لات مار کر گھر سے نکال دیا – شوہر کی نظروں سے گری ہوئی عورت کی معاشرے میں بھی کوئ عزت نہیں ہوتی اس کے بعد اس کے مائکے والوں نے بھی اسے پناہ نہیں دی – آخر علاقے کے اوباش اس کی جوانی پر ترس کھا گئے اور اس پر بے حد مہربان ہو گئے انہوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اوراپنی استعداد کے مطابق سب مل کر اس کی کفالت کا بوجھ برداشت کرنے لگے یہ دیکھ کر شہر کے معززین کو بھی اپنی ذمے داری کا احساس ہوا اور انہوں نے بھی اس نیک کام میں معاشرے کے اس طبقے کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا اور اس کو دیکھتے ہی دیکھتے بلا سند نگر بدھو کا درجہ مل گیا – پھر اس کی زندگی آسان ہو تی چلی گئی جہاں سے اور جس سے وہ اپنی ضرورت کی چیز چاہتی حاصل کر لیتی اسے کوئ روکتا ٹوکتا نہیں تھا صرف مسکراکر ٹالل جاتا تھا – اسی شہر میں کچھ عرصے پہلے کبھی بے زبان چمپیا بھی رہتی تھی اور آج یہ دھنو اسی جگہ پر رہتی ہے لیکن کتنا فرق ہے دونوں میں –

اس نیم پاگل پر لوگوں کی مہربانیاں دن پر دن بڑھتی چلی گئیں انہوں نے اسے شراب ، چرس، گانجا وغیرہ پلا پلا کر پورا پاگل بنا ڈالا ، جس سے وہ کبھی ہوش میں ہی نہ آ سکے اور اس میں زرّہ برابر بچا کھچا احساس بھی باقی نہ رہے تاکہ اسے اپنی بربادی اور لوٹی ہوئی عصمت تار تار ہونے کا کبھی احساس یا درد نہ ہو اور اس نے بھی بلا کسی مزاحمت کے اپنے کو زمانے کی مرضی پر چھوڑ دیا تھا جو کسی کی بربادی کا تماشا بڑی بے رحمی سے دیکھتے رہنے کا عادی ہے –

دھنوں جب نشے میں مد ہوش ہو کر شہر کے طواف کے لیے نکلتی تو کسی تانگے یا رکشہ پر ایسی تن کر بیٹھتی جیسے شہر کا کوتوال اپنے علاقے کا دورہ کرنے نکلا ہو-

کچھ عرصے تک دھنوں کو برباد کرنے والوں کی ہر روز روزے عید اور ہر شب شب برات رہی لیکن کچھ دنوں کے بعد ایسے لوگوں کو احساس ہونے لگا کہ دھنوں حساب کتاب برابر رکھتی ہے دراصل جب دھنوں نارمل ہوتی یا اس پر پاگل پن کا دورہ نہ ہوتا تھا تب وہ اپنے پر پھبتیاں کسنے والوں کو برابر کا جواب دیتی تھی – وہ سرے عام ان کی کالی کرتوتوں کا پردہ فاش کرنے میں زرہ برابر بھی ہچکچا تی نہیں تھی ہاں کسی شریف آدمی کی پگڑی وہ کبھی نہ اچھا لتی – اس نے کچھ ہی عرصے میں شہر کے تمام اوباشوں کے سارے ارمان بے روک ٹوک نکال ڈالے یا یوں سمجھئے کہ اس بیچاری کو ان ظالموں کے پنجے سے نجات دلانے والا بھی تو کوئ نہیں ملا تھا جو بھی اس کے قریب آیا اسے جیسے چاہا لوٹ کھسوٹ کر چلتا بنا – لوگ کمزور اور لاچار کی تو مدد کرتے نہیں ہیں پھر بھلا اس پاگل کی حالت زار پر دو آنسو بہانے کا کس کے پاس وقت بچا تھا حلانکی شہر میں انسانی حقوق کی پامالی سے متعلق تنظیم موجود تھی لیکن یا تو اسکی اپنی کوئ مجبوری تھی یا پھر وہ ان پاگل انسانوں کو انسانوں کی فہرست میں نہیں رکھتی تھی – ظاہر ہے دنیا میں ایسے لوگوں کی کوئی بے لوث مدد کرنے والا دکھائی نہیں دیتا ہے پھر بھی قدرت کا اپنا نظام ہے اور جب ظلم حد سے گزر جاتا ہے تو اس کے سدباب کے لیے قدرتی عمل خود بخود شروع ہو جاتا ہے اور پھر کچھ ایسا ہی دھنو اور چمپیا پر ظلم توڑنے والوں پر شروع ہوا – دھنو سے رابطہ قائم رکھنے والوں میں وہ ایک دوسرے میں جنسی امراض منتقل کرنے کا آسان ذریعہ بن گئی جس سے اس پر دن و رات مسلسل ظلم و ستم توڑنے کا یہ بد صورت سلسلہ تھم گیا جس سے اس نے تھوڑی راحت کی سانس لی –

ایک دن میں بازار میں ایک دکان پرکچھ سامان خرید رہا تھا کہ یکایک میاں مٹرو وہاں آ دھمکے، جو میرے لنگوٹیا یاروں میں سے ایک تھے اور تھوڑے بے ہودہ بھی تھے دوسروں کی کمزوریوں کو طشت از بامم کر کے ان کا مزاق اڑاتے اور خود کا بھی اڑوانے میں ذرا بھی تکلف نہ کرتے – ان کا کام محض ہنسنا اور ہنسا نا تھا انہیں اس سے کوئ فرق نہین پڑتا تھا کہ وہ دوسروں کے بارے میں اور دوسرے ان کے بارے میں کیا سوچتے اور کہتے ہیں وہ کرید کرید کر پہلے تو لوگوں سے ان کے راز معلوم کر لیتے اور پھر چٹخارے لے لے کر ان کا پورے شہر میں ڈھنڈھورا پیٹتے پھرتے – ان کی اس بے ہودہ حرکت سے سمجھدار لوگ ان سے بات کرتے کترانے لگے تھے – لیکن وہ بھی اپنے فن میں بڑے ماہر ہو گئے تھے بھلا جس کا دامن پکڑنا چاہیں پھر وہ بچ کر نکل جائے یہ ممکن نہیں تھا – مجھے دیکھتے ہی میرا پر تپاک خیرمقدم کیا اور جلدی سے میرا ہاتھ بڑی مضبوطی سے پکڑ کربہت گرم جوشی سے مصاحفہ کیا ، دکان کا ایک سٹول بے تکلفی سے کھینچا اور اس پر خود بیٹھتے ہوئے گویا ہوئے –

” کیا خاں صاحب ! ……..کہاں رہتے ہو؟….یار اس شہر میں رہ کر بھی کبھی دکھائی نہیں دیتے ہو ……آج بہت دنوں بعد ملے ہو -”

” بہت دنوں بعد ملے ہو” میں زیر لب بڑبڑایا “یہ کیوں نہیں کہتے بہت دنوں بعد آج ہاتھ آئے ہو-”

” کیا سوچ رہے ہو یار؟”……..انہوں نے مجھے ٹوکا اور میرا ہاتھ چھوڑے بغیربولے ” ذرا ہمارے پاس بھی کبھی کبھی بیٹھ لیا کرو …..یارکوئ نئ خبر وبرسناؤ… اپنے اور اپنے آس پاس والوں کے کچھ حال چال بتاؤ؟…..کیسی کٹ رہی ہے -”

مجھے میاں مٹرو کے مکڑ جال میں پھنستا ہوا دیکھ کر دکاندار مسکرایا – شاید وہ سوچ رہا تھا کہ آج خاں صاحب کی چھٹی ہو گئی- اب دیکھو میاں سے کتنی دیر بعد پیچھا چھوٹے کہ ٹھیک اسی وقت کسی اوباش لڑکے نے دھنو کو چھیڑ دیا جو دکان کے سامنے سڑک سے گزر رہی تھی اور پھر دھنو نے اپنے مخصوس انداز میں اس اوباش کے ماں، بہن اور خود اس کے بارے میں بے دھڑک فحش ڈائلاگ کی بے باک ادائیگی اونچی آواز میں اپنے مخصوص انداز میں شروع کردی- جس سے سڑک سے گزرنے والوں نے اپنی اپنی گردنیں گھما کر، دکانوں پر موجود لوگوں نے ان سے باہر جھانک کر اس منظر کا لطف اٹھانا شروع کر دیا- سب کے سب اس بے پیسے کے تماشے سے شاد اور مسرور تھے کسی کو اس کے درد، غم یا غصّے کی پرواہ نہیں تھی وہ ایک دوسرے کو شرارتی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے اور ان کے لبوں پر معنی خیز مسکراہٹ دوڑ رہی تھی معلوم ہوتا تھا جیسے دھنوں کی درد بھری چیخ و پکار نے ان سب کے لیے ایک سآتھ کوئی خوشی کا سامان موہیا کرا دیا تھا ایسے میں میاں مٹرو کب چین سے بیٹھنے والے تھے فورا” اس کی طرف مخاطب ہو کر زور سے بولے –

” کیا بات ہے دھنوں ! ……..کیوں صبح صبح بوا ل مچا رہی ہو-”

دھنوں نے میاں مٹرو کی بات سنی تو میاں مٹرو کے قریب آکر بیٹھ گئی اور سب لوگ ہماری طرف دیکھ دیکھ کرہنسنے اور اشارے کنائے کرنے لگے – جسے دیکھ کر میں گھبرا گیا اور خفّت سی محسوس کر میں نے سوچا “آج کہاں آکر پھنس گیا اس مٹرو کے چکر میں -”

“دھنوں !” میاں مٹرو نے اسے مخاطب کیا اور اس سے بڑی ہمدردی سے پوچھا ” یہ کون تھا ؟…ماں کا..ل ….”

” کیا بتاؤں میاں ! …..میرا بچّہ تھا -” دھنوں کا یہ جواب سن کر مجھے بڑا تعجب ہوا – اس لیے میں نے میاں مٹرو کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا، ساتھ ہی مجھے اس بیہودہ انسان پر بڑا غصّہ آیا – جسے یہ بیچاری اپنا بچّہ سمجھتی ہے وہی نامراد اسے سرعام رسوا کر کتنی تکلیف پہنچا گیا تھا تبھی میرے کانوں میں میاں مٹرو کی پھسپھسا ہٹ سنائی دی جو بڑے رازدارانہ انداز میں دھنوں سے پوچھ رہے تھے –

” اس کا نام کیا ہے؟”

” نام !” کہکر و مسکرائی “میں کیا جا نو…….میرے لیے تو سب نام ایک سے ہیں -” پھر تھوڑی دیر رک کر بولی ” میں تو صرف اتنا جانتی ہوں میاں! کہ اس کا باپ بھی میرا بچّہ ہے -” اس نے برا سا منھ بنایا جیسے کوئی بدمزہ چیزمنھ میں آگئی ہو اور نفرت سے سڑک پر تھوک دیا پھر اٹھ کر ایک طرف کو آہستہ آہستہ قدم ااٹھاتی ہوئی تھکی تھکی سی چلی گئی –

اس کے جانے کے بعد میں نے میاں مٹرو سے پوچھا ” یہ تو سب کواپنا بچّہ کہتی ہے-”

میرا سوال سن کر میاں مٹرو پر ہنسی کا دورہ پڑ گیا اور میں احمق بنا اس کی ہنسی کے رکنے کا انتظار کرتا رہا –

” سب کو نہیں میرے بھولے دوست ! ” میاں مٹرو کے دورے کی شدّت کم ہوئی تو وہ گویا ہوئے “جو اس سے اپنے ناجائز جنسی تعلقات قائم کرتا ہے صرف اسے ہی وہ اپنے بچّوں میں شامل کرتی ہے -”

“لاھول ولا قوت! ……تم نے بھی حد کر دی یار! …….. واقعی کمال کرتے ہو…….کس قدر ھول ذلول باتیں کرتے ہو -” میں نے میاں مٹرو کی بات سے اتفاق نہ کر تے ہوئے ناراضگی ظاہر کی –

” یقین مانو …….. تم..ھاری قسم “کہتے ہوئے میاں مٹرو نے لپک کر میرے سر پر ہاتھ رکھ دیا –

“قسمیں بھی جھوٹی کھا رہے ہو یار!…….اور وہ بھی میرے سر کی…بس کرو یار! -” میں نے اپنے سر سے اس کا ہاتھ آہستہ سے ہٹا دیا جو جناب ابھی تک اطمینان سے ٹکائے ہوئے تھے –

” بھائی صاحب چچا مٹرو صحیح فرمارہے ہیں -” میرے پیچھے کھڑے ایک نوجوان نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی تو اس کا حوصلہ اور بڑھ گیا اس لئے پھر جلدی سے وہ میری معلومات میں اضافہ کرنے لگا –

” میاں میں جو کچھ کہہ رہا ہوں ……وہ حرف بہ حرف صحیح ہے …….یقین نہ آئے تو کسی سے بھی پوچھ لو ……اس کے بچّو ں کی لسٹ اتنی طویل اور حیرت انگیز ہے کہ کانوں پر ہاتھ رکھ لوگے ……اب میں کیا بتاؤں جناب اس نے اپنی گردن اونچی کر میرےاور قریب ہوتے ہوئے کہا –

” آپ کے شہر کی مشہور و معروف ہستیاں، ان کے بھائی ، بھتیجے ، بیٹوں کے ساتھ ہی عام اور خاص اس میں شامل ہیں ……تم کہو تو میں اسے بلا کر ایک ایک کا نام گنوادوں -”

” بس !..بس!! اب بس بھی کرو یار! بہت ہو گیا …..میں اس سے زیادہ نہیں سن سکتا ہوں -” مجھے پریشان ہوتا دیکھ کر میاں مٹرو نے بھی سکوت اختیار کرلیا لیکن مجھے بڑی عجیب نظروں سے دیکھ کر کچھ سوچنے لگا- دراصل اب سوچ میں بھی رہا تھا-

” کیا میں بھی اسی معاشرے کا ایک رکن ہوں ……….جن کی کالی کرتوتوں سے میاں مٹرو نے آج میری آنکھوں کے سامنے سے پردہ اٹھاکر یہ با ور کرا دیا کے یہ دیکھو دنیا کی حقیقت کہ خود کو عقلمند سمجھنے والے پاگلوں پر بھی رحم نہیں کرتے -” ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ایک دلدوز نسوانی چیخ میری سماعت سے ٹکرائی جس سے میں چوںک پڑا – پھر میری آنکھوں نے ایک اور عجیب منظر دیکھا-

ایک شخص جس کے ہاتھوں میں ایک کمبل تھا چمپیا کو اس سے اپنے مضبوط ہاتھوں کی گرفت میں کسنا چا رہا تھا اور وہ اس سے آزاد ہونے کے لیے بری طرح چھٹپٹا رہی تھی اس سے پہلے کہ میں اس کی کوئ مدد کر پاتا وہ ایک زوردار جھٹکا دیکر اس سے الگ ہو گئی اور وہ شخص لڑکھڑا کر اوندھے منھ زمین پر گر گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک چھوٹے سے پتھر میں تبدیل ہوگیا لیکن جیسے ہی وہ پیچھے ہٹی اسے ایک دوسرے شخص نے دبوچ لیا جس کے ہاتھوں میں سرخ دلہن والی سہاگ کی ساری تھی چمپیا نے کافی جدو جہد کے بعد آخر اس سے بھی اپنے اپ کو آزاد کرا لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ بھی چھوٹا پتھر بن گیا لیکن دوسرے ہی لمحے وہ اس ہجوم کو دیکھ کر بہت ڈر گئی جو اس کے گدو نواح پڑے چھوٹے چھوٹے پتھروں سے پیدا ہو کر اس کی طرف بڑھتا چلا آرہا تھا اس بھیڑ میں شہر کے ہر طبقے کے فرد کا چہرہ صاف نظر آرہا تھا اور ان کے ہاتھوں میں اسے للچانے کے لیے کھانے، پینے، اوڑھنے، پہننے، سجنے، سنورنے نیز ایک عورت کو لبھانے کا وہ سبھی سامان تھا لیکن وہ ان کی طرف جانے کے بجائے دوسری طرف بھاگ کھڑی ہوئی جس طرف خوفناک پہاڑیوں کا سلسلہ دور دور تک چلا گیا تھا جہاں دن میں بھی لوگ اکیلے جانے سے گھبراتے تھے میں نے اسے روکنے کے لیے آواز دینا چاہی لیکن نامعلوم کیوں میری آواز میرے حلق میں پھنس کر رہ گئی- جب میں نے اسے روکنے کے لیے دوڑنا چاہا تو میں چاہ کر بھی ایک قدم آگے نہ بڑھا سکا اور اس کوشش میں ایک پتھر کے بت کی مانند گر پڑا پھر ڈھلان پر لڑھکتا ہوا دھم سے پہاڑ کے نیچے گر پڑا- میرا دل بہت زور سے دھک دھک کر رہا تھا اور سرد رات کے باوجود میرا پورا وجود پسینے میں شرا بور تھا میں نے آنکھیں کھولیں اور لیٹے لیٹے اپنے پاؤں ٹٹول کر ایک طائرانہ نظر اپنے آس پاس کے ماحول پر ڈالی تب مجھے یہ جان کر تسلی ہوئی کہ میں اپنی خواب گا ہ میں محفوظ موجود ایک ڈراونے خواب سے دوچار تھا –

رات نا معلوم کس وقت دوبارہ آنکھ لگ گئی صبح زور زور سے دروزہ کھٹکھٹانے کی آواز پر میں اٹھ بیٹھا – کمرے سے باہر آیا تودیکھا ڈاک بنگلے کا چوکیدار کھڑا تھا مجھے دیکھتے ہی بولا –

” صاحب جی! ……..کیا آج آپ کو سائٹ پر نہیں جانا ہے …….دیکھئے کتنی دیر ہو گئی ہے …….. آپ تو روزانہ صبح ہی چلے جاتے ہیں -”

“ہاں تم ٹھیک کہتے ہو ………مجھے واقعی آج دیر ہو گئی ہے ……..دار اصل رات میں بہت دیر سے سو سکا تھا ……آج وقت سے نہیں پہنچا تو میرا کام پورا نہ ہو سکےگا -” میں نے پریشان ہو کر اسے جواب دیا اور وقت کا صحیح اندازہ کرنے کے لیے باہر کی طرف جھانکا –

” کوئی بات نہیں صاحب جی ! مجھے پریشا ن دیکھ کر اس نے تسلی دی آپ جلدی سے تیار ہو جایئے…… میں آپ کوروز کی طرح آج بھی ٹھیک وقت پر پہنچا سکتا ہوں -” شاید وہ میرے حسن سلوک اور بخشش سے اتنا خوش تھا کہ کہے بغیرہی وہ میری مدد کو تیّا ر ہوگیا تھا –

” کیا وہاں تک پہنچنے کا کوئی شا رٹ کٹ راستہ بھی ہے -”

” جی ہاں صاحب جی ! ……..یہ پہاڑی راستے ہیں جنہیں پہاڑی جانتے ہیں ……لیکن ؟”

” لیکن کیا ؟”

” صاحب جی ! راستہ تھوڑا مشکل اور خطرناک ہے -”

” تم اس کی فکرمت کرو……..میں خطروں سے نہیں ڈرتا ہوں ……تم بھی تو آخر انسان ہو ……. تم چل سکتے ہو تو میں کیوں نہیں چل سکتا ؟” یوں تو میں نے سنا پھلا کر کہہ دیا لیکن حقیقت میں خود جانتا تھا –

” ہم تو عادی ہیں صاحب جی! ….اور پھر یہ ہمارا علاقہ ہے ….ہم ڈر گئے تو یہاں پردیسیوں کو راستہ کون دکھاۓ گا-”

” ویری گڈ !” کہہ کر میں جلدی جلدی تیّار ہونے لگا-

تھوڑی دیر کے بعد میں اس کے ساتھ ایک ایسے سنگلاخ علاقے سے گزر رہا تھا کہ ذرا سی چوک موت کا پیغام بن سکتی تھی اور ہم کسی گہرے کھڈ میں گر سکتے تھے لیکن چوکیدار مجھے بڑی حفاظت سے اپنے ساتھ لیکر چل رہا تھا جہاں زیادہ خطرناک او ر دشوار گزار راستہ ہوتا وہ میرا ہاتھ پکڑ کر اسے پار کرا تا- جب ہم پہاڑی سے کافی نیچے اتر گئے تو ایک جگہ بہت سے لوگوں کو جمع دیکھ کر ہم لوگ بھی اس طرف بڑھ گئے پاس جاکر چوکیدار نےایک آدمی سے ان کے یہاں ایک ساتھ موجود ہونے کی وجہ دریافت کی تو اس نے بتایا –

” رات کو ایک اجنبی عورت اوپر کی چٹان سے پھسل کر نیچے گر پڑی ہے اور یہ اس کی لاش ہے تم تو ڈاک بنگلے کے چوکیدار ہو …..ذرا دیکھ کر بتاؤ کہ کیا یہ تمھارے ڈاک بنگلے کی تو نہیں ہے ؟”

-یہ سنتے ہی چوکیدار آگے بڑھا اور اس لاش کے قریب پہنچا، میں بھی اس کے پیچھے پیچھے ہو لیا اس نے لاش پر پڑی ہوئی وہ چھوٹی چادر اٹھائی جو کسی نے لاش پر ڈال دی تھی

لیکن یہ کیا لاش کے منھ سے چادر ہٹتے ہی میرے منھ سے گھٹی گھٹی سی ایک چیخ نکلنے سے پہلے حلق میں پھنس کر رہ گئی کیونکہ اس بے درد، بے حس زمانے میں برسوں ظلم اور تشدّد کا شکار بنی بے زبان، مظلوم چمپیا کی لاش آج میرے سامنے پڑی تھی اور میں یہ سوچ کر پریشان تھا کہ رات کو چمپیا سے میری ملاقات واقعی ایک خواب تھا یا کوئ حقیقت

تحریر – آل حسن خاں قایم گنج انڈیا