ناگن


Nagin_11-21-2016

ہارر مائکرو فکشن “ناگن” تحریر۔ آل حسن خاں قائم گنج’ انڈیا۔

یکایک وہ میرے سامنے تن کر کھڑی ہو گئی اور میں اپنی سدھ بدھ کھو بیٹھا ہم دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھے جا رہے تھے کہ اچانک اس نے میری طرف سے منھ پھیرا اور لہراتی ہوئی بل کھاتی ہوئی کسی دوشیزہ کی مانند میرں آنکھوں کے سامنے سے کہیں اوجھل ہو گئی۔ تب مجھے ہوش آیا اور میری شریانوں میں منجمد خون کا دوران شروع ہو گیا خوف و دہشت میں کچھ کمی آئی تو میرے سن دماغ نے کام کرنا شروع کیا تو میں نے جان بچ جانے پر ﷲ کا شکر ادا کیا۔ بات دراصل میری کم عقلی کی تھی مجھے خود اس کھنڈر نما ویران حویلی میں نہیں آنا چاہیئے تھا۔

ہوا یہ کہ مجھے اعلیٰ تعلیم کے لیے قصبے سے شہر آکر رہنا پڑا۔ ندی کے دونوں کنارے بسے شہر کے اس علاقے میں یہ ویران حویلی صبح صبح کسرت کے لیے مجھے پسند آئی اور اس کے جھاڑ جھنکاڑ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے میں یہاں کئی دن سے آرہا تھا جہاں لوگ اکیلے آتے ہوئے دن میں بھی ڈرتے تھے جہاں آج میرے سامنے یہ خوفناک واقعہ پیش آیا۔ آپ جاننا چاہیں گے وہ کون تھی اور میں اسے دیکھ کر کیوں سہم گیاتھا تو بتائے دیتا ہوں وہ حسین و جمیل پری پیکر ایک ناگن تھی لیکن باوجود اس حادثے کے میں وہاں جانے سے اپنے کو چاہ کر بھی روک نہ سکا اور کوئی انجانی کشش مجھے وہاں پھر سے جانے کے لیے مجبور کرنے لگی۔ خوف میں کمی ہوتے ہی دو دن بعد میں پھر اسی حویلی میں موجود تھا صبح کا وقت گرمی کا موسم اس میں چلتی ہوئی ہوا کی خنکی جسم کو خود بخود توانائی بخش رہی تھی۔ آج دو دن کے آرام کے بعد میں نے پہلے توخوب ڈنڈ پیلے اور آخر میں جب تھک کر چور ہو گیا تو برامدے کے ایک ستون سے ٹیک لگا کر سستانے کے لیے آنکھ بند کر بیٹھ گیا شاید زیادہ تھکان کی وجہ سے کچھ غنودگی محسوس ہونے لگی تبھی مجھے محسوس ہوا کہ میری ننگی رانوں پر کوئی گرم گرم ہاتھوں سے سہلا رہا ہے میں نے گھبراکر آنکھیں کھولیں تو میرے ہوش اڑ گئے وہی ناگن میرے سامنے موجود تھی اور میرے جسم کی زرا سی جنبش سے وہ ایکدم پھن پھیلا کر کھڑی ہوگئی۔ میری اس سے آنکھیں چار ہوئیں تو مجھ پر نشہ سا طاری ہونے لگا اورمجھے محسوس ہوا کہ مجھ میں اب ہلنے ڈلنےکی بھی طاقت نہیں رہی اور میں اپنی موت کو یوں سامنے کھڑا بے بسی سے دیکھتا رہا۔ میری خاموشی پر اس نے اپنا پھن سکیڑا اور میرے کسرتی بدن پر رینگنے لگی تھوڑی دیر بعد میری دہشت میں کمی آنے لگی اور اس کے اس عمل سے میں بھی ایک عجیب سی لذّت محسوس کرنے لگا۔ اتنے میں میرا ایک دوست جسے یہ جگہ میں نے پہلے بتا رکھی تھی مجھے ڈھونڈتا ہوا وہاں آگیا اور یہ منظر دیکھتے ہی ایک زوردار چیخ کے ساتھ ہی بے ہوش ہو گیا۔

آل حسن خاں”رہبر’ قایم گنج ‘انڈیا